Friday, April 16, 2010

شاہ رگ کے گرد لپٹی حفاظتی جھلیّ

شاہ رگ اور شاہ رگ کے گرد لپٹی حفاظتی جھلیّ


شاہ رگ خون کی وہ سب سے بڑی شریان ہے جو دل سے نکلتی ہے اور پورے جسم کو خون فراھم کرتی ہے۔ یہ بہت سی عضلاتی تہوں پر مشتمل ھوتی ہے اور اس قدر مظبوط بنائی گئی ہے کہ دل کے اندرہر دھڑکن کے ساتھـ جو دباؤ پیدا ھوتا ہے یہ اس کو برداشت کرتی ہے۔ بسا اوقات کسی شخص کی شاہ رگ میں کوئی تہہ کسی جگہ سے چاک ھو جاتی ہے۔ اور خون چاک جگہ سے رس کر دوسری تہہ میں رسنے لگتا ہے ، اس کی جراحی اور علاج اس بات پر منحصر ہے کہ یہ چاک شدہ تہہ شاہ رگ میں کہاں پر واقع ہے۔






" اے " قسم کے چاک ، شاہ رگ کے عروجی حصّہ (ascending aorta) میں واقع ھوتے ہیں جو کہ دل سے نکلتی ہے اور اپنی محراب تک جاتی ہے اور اس محراب سے وہ شریانیں خارج ھوتی ہیں جو کہ دماغ اور بازؤں کو خون فراھم کرتی ہیں ۔

" بی " قسم کے چاک ، شاہ رگ کے تنزیلی حصّہ (descending aorta) میں واقع ھوتے ہیں ۔ عموما ً شاہ رگ میں چاک اس وقت پیدا ھوتے ہیں جب کوئی شخص لمبے عرصہ تک درست طور پر اور بروقت اپنے بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) پر قابو نہ رکھے ۔



ذیادہ تر شاہ رگ کے چاک اس وقت بنتے ہیں جب کوئی شخص لمبے عرصہ تک درست طور پر اور بروقت اپنے بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) پر قابو نہ رکھے ۔ دوسری متعلقہ وجوھات یہ ھو سکتی ہیں ۔

· مارفانز سینڈرم (جسم میں موروثی طور پر داخل ھونے والی ایک جنیاتی بیماری جو کہ جسم کے کسی جصہ پر بھی وارد ھو سکتی ہے جیسے آنکھوں پر، جسمانی ڈھانچے پر، شریانوں پر، اعصابی نظام پر، جلد پر ، پھیپڑوں پر، اس بیماری میں وہ جین جو کہ جسمانی ریشوں کو آپس میں جوڑتی ہے میں خرابی کی وجہ سے جسم میں بے ترتیبی یا چاک پیدا ھوتے ہیں ۔

· زخم یا چوٹ

· حمل

· قلب کی تشریحی جراحی (Open heart surgery) کے بعد کی کسی پیچیدگی کے سبب ۔

شاہ رگ کی چاک کا درد اچانک اٹھتا ہے اور عموما ً مریض جب اس کوبیان کرتا ہے تو کہتا ہے کہ شدید چبھتا ھوا اور چیرتا ھوا درد ھوتا ہے۔ یہ درد مسلسل بھی ھو سکتا ہے - یا اس کے درد کا انداز ویسا ھی ھو سکتا ہے جیسے پھیپڑوں کے گرد لپٹی جھلیّ میں سوزش یا ورم کے وجہ سے ھوتا ہے، اور سانس لینے سے تکلیف میں اضافہ ھو جاتا ہے۔ عموما ً یہ درد کمر تک سرائیت کر جاتا ہے۔ شاہ رگ کی چاک کے درد پر اکثر ھارٹ اٹیک کا ۔ یا پھر خوراک کی نالی میں خرابی کا ، یا پھر دل کے گرد لپٹی جھلیّ میں خرابی کا دھوکا ھو جاتا ہے۔

اس کی تشخیص مریض کی بیماری کی ہسٹری ، اس میں مضمر خطرات کو مدنظر رکھتے ھوئے ۔ مریض کا طبعی (ظاہری) معائنہ، اور ڈاکٹر کے شکوک و شبہات کو دیکھتے ھوئے کی جاتی ہے۔ ظاہری معائنہ کے دوران اگر دونوں کلائیوں پر نبض کا معائنہ کیا جائے یا پھر ٹانگوں میں نبض کا معائنہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ یہ بات سامنے آئے کہ یا تو تھوڑی دیر کے لئےنبض غائب ھو جائے یا پھر ایک دوسرے سے میل نہ کھائے یا ایک کی نسبت دوسری دیر سے حرکت کرے ۔ اگر شاہ رگ کے والو (وہ جگہ جہاں شاہ رگ دل سے نکلتی ہے ) میں چاک آ جائے تو دل کی آواز کے ساتھـ ایک دھیمی آواز کا اضافہ ھو جاتا ہے۔ اور اگر یہ چاک شاہ رگ میں اس جگہ پڑے جہاں جسم کے کسی حصّہ کو خون فراھم کرنے والی شریان خارج ھو رھی ھو۔ تو ایسی حالت میں جسم کے اس حصّہ کو سٹروک یا فالج کا خطرہ ھو سکتا ہے جو اس شریان سے سیراب ھوتا ہے ۔ یا گردوں اور انتڑیوں کو خون کی فراھمی رک سکتی ہے۔ یا پھر بازؤں اور ٹانگوں کو خون کی فراھمی رک سکتی ہے۔

شاہ رگ کے چاک کی تشخیص تصویر کشی سے یقینی ھو سکتی ہے، جو عموما ً شاہ رگ کی سی ٹی انجیوگرافی سے کی جاتی ہے۔

اے قسم کے چاک جو کہ شاہ رگ کے عروجی (ascending aorta) حصّہ میں ھوتے ہیں کا علاج جراحی سے کیا جاتا ہے، اور شاہ رگ کے چاک شدہ حصّہ کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک مصنوعی شاہ رگ کا حصّہ جوڑ دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات اگر شاہ رگ کے والو کو جزوی نقصان پہنچا ھو تو اس کی مرمت کر دی جاتی ہے یا اگر ذیادہ نقصان پہنچا ھو تو اس کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

" بی " قسم کے چاک جو کہ شاہ رگ کے تنزیلی حصّہ (descending aorta) میں واقع ھوتے ہیں کا ابتدائی علاج ادویات سے کیا جاتا ہے۔ تاکہ بلڈ پریشر کو قابو کیا جا سکے، اور پھر بلڈ پریشر کو کوشش کر کے نارمل حالت میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے لئے بیٹا بلاکر Beta blockers اور کیلشیم چینل calcium channel جیسی ادویات استعمال کی جاتی ہیں ، اگر ادویات سے بیماری قابو میں نہ آئے تو پھر جراحی کی جاتی ہے ۔

اگر شاہ رگ کا یہ چاک شاہ رگ کی تینوں تہوں میں پر جائے اور شاہ رگ پھٹ جائے تو یہ ہلاکت خیز ھوتا ہے۔ اس کے متاثرہ ٪ 50 مریض ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی مرجاتے ہیں ۔ شاہ رگ کے پھٹنے والے مریضوں میں شرح اموات ٪ 80 تک ہے۔




No comments:

Post a Comment

 

Heart Attack Copyright © 2009 Gadget Blog is Designed by Ipietoon Sponsored by Online Business Journal